صبا نزہت
کرہ ارض پر جب زندگی کی ابتداء ہوئی تب انسان کے سامنے بس تین ہی بنیادی مسائل تھے۔ رہائش، خوراک اور لباس رہائش کے لئے اس نے غاروں اور درختوں کے سائے میں پناہ حاصل کی۔ پھل، سبزیوں اور نباتات کو اپنی خوراک بنایا، درختوں کے پتوں اور جانوروں کی کھالوں کو اپنا لباس بنایا۔
رفتہ رفتہ وہ ارتقاء کی منازل طے کرتا ہوا ان ضروریات زندگی میں تنوع پیدا کرتا رہا اور اپنی ضروریات کی تکمیل میں جدت اختیار کرتا چلا گیا۔ آرام و آسائش کی ایسی ایسی چیزیں ایجاد کر ڈالیںکہ عقل دنگ رہ گئی، حتی کہ اپنی طرز زندگی میں جدت پیدا کرتے کرتے وہ اس مقام تک پہنچ گیا کہ اس کے زیاد ہ تر کاموں میں انسان کی جگہ مشینوں نے لے لی اور آج صورتحال یہ ہے کہ انسان مکمل طور پر مشینوں پر ہی انحصار کرنے لگا ہے۔ جی ہاں انسان نے خود کو مسترد کر کے مشینوں کو اپنا قائم مقام بنالیا ہے اور انسان کی معذولی کا سبب سائنس اورٹیکنالوجی ہے جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں یوں اپنا قبضہ جمالیا ہے کہ اس کے بغیر زندگی دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتی ہے۔ آج ہم جہاں بھی نگاہ ڈالتے ہیں وہاں ٹیکنالوجی ہی راج کرتی نظر آتی ہے۔ دنیا کے نقشے اٹھا کر دیکھے انسانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر کرہ ارض پر ہر طرف بلند و بالا عمارتوں کا جال سا دکھائی دیتا ہے جن پر چڑھنے کے لیے انسان لفٹ اور ایکسلیٹر کا محتاج بن گیا ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے تیز رفتار اور آرام دہ گاڑیاں حاضر ہیں۔ ہوائی جہازوں اور ٹرینوں نے مہینوں کا سفر سمیٹ کر گھنٹوں پر محیط کردیا ہے۔
ہاتھ سے بنے ہوئے کپڑوں رواج بھی اب قصہ پارینہ ہے اب میشنوں سے ہی ہلکے سے ہلکا اور موٹے سے موٹا کپڑا دیدہ زیب ڈیزائنوں میں بن کر نکلتا ہے اور فیشن انڈسٹری کا حصہ بن جاتا ہے۔ فروزن فوڈ کا رواج بھی ٹیکنالوجی کا شاخسانہ ہے انسان کی غذائی ضرورت کو پورا کرنے اور اس کے ذائقے کی تسکین کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد سے جانوروں کی مصنوعی طور پر افزائش کی جانے لگی ہے۔
سائنسی ٹیکنالوجی کا استعمال صرف خوراک، کپڑا اور رہائش تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی وہ کلی طور پر چھا گیا ہے خواہ وہ تعلیم کا شعبہ ہو یا میڈیکل کا اب جدید ٹیکنالوجی پر ہی رواں دواں ہے تمام محکموں اور دفاتر میں بھی اب کمپیوٹرائزڈ نظام ہے۔ پولیس اسٹیشن میں مجرموں کے کوائف کا اندراج ہو یا عدالتوں کے دفتری امور، بینک ہوں یا نادرا کا آفس ہر جگہ ٹیکنالوجی کے نظام نے کاموں کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ آسان اور برق رفتار بھی بنا دیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے جنگوں کا انداز بھی بدل دیا ہے۔ اب دست بدست لڑنے والے سپاہیوں کی ضرورت نہیں رہی۔ ان کی جگہ ایٹمی ہتھیاروں اور ڈرون جہازوں نے لے لی ہے۔ چند بٹن دباتے ہی پورے کا پورا شہر ہی تباہ ہوجاتا ہے۔
تعلیمی اداروں میںبلیک بورڈ کی جگہ اسمارٹ اسکرین نے لے لی ہے۔ اب اسکولوں میں لکھنے سے زیادہ ٹائپ کرنے کا رواج ہوچلا ہے۔ لائبریری کی موٹی موٹی تمام کتابیں اب ebook کی شکل میںpdf فارمیٹ میں گھر بیٹھے دستیاب ہیں۔20ویں صدی کی سب سے حیرت انگیز ایجاد کمپیوٹر تھا جس کی برق رفتاری پر انسان کو بڑا ناز تھا مگر پچھلی دہائی میں آنے والے ٹچ اسکرین موبائل فون اور wifi نے کمپیوٹر کو بھی مات دے دی۔ اب ایک ذرا سا موبائل فون بیک وقت کئی کام سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ چھوٹا سا سیل فون لوگوں کی پاکٹ ڈائری، ہاتھ کی گھڑی، بچوں کا کیلکولیٹر، دیوراوں کے کلینڈر، ٹارچ حتیٰ کہ ٹی وی، وڈیو گیم اور ریڈیو تک ہضم کرچکا ہے۔ اب تو قرآن شریف بھی کچھ لوگ موبائل پر ہی پڑھ لیتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب تو لوگ، تعذیت، عیادت، مبارک باد کے لیے بھی بالمشافہ ملاقات کرنے کے بجائے فیس بک پرہی یہ فریضے سر انجام دیتے ہیں۔
اپنے گھروں کا جائزہ لیں تو انسانوں سے زیادہ مشینیں دکھائی دیں گی۔ اے سی، ہیٹر، اوون، واشنگ مشین، سلائی مشین، گرائنڈر، جوسر، چوپر، بیٹر، آٹا گوندھنے کی مشین، برتن دھونے اور روٹی پکانے کے لیے بھی مشین موجود ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ چند سالوں بعد روٹی کھلانے کے علاوہ لوگوں کو سلانے اور نہلانے کی بھی مشینیں ایجاد ہوجائیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے جس سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس ٹیکنالوجی کی مدد سے حاصل ہونے والی منعفت سے کنارہ کشی اختیار کی جاسکتی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہی ٹیکنالوجی انسان کے لیے خاصی مضر صحت بن چکی ہے۔ پہلے انسان اپنے کاموں کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے میلوں پیدل چلتا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا جسم تندرست و توانا تھا۔ ٹانگیں بھی مضبوط تھیں اور جسم کے تمام اعضاء اپنے افعال ٹھیک طرح سر انجام دیتے تھے۔ مگر اب انسان سستی اور کاہلی کا شکار ہوگیا ہے۔ ذرا سا بھی فاصلہ طے کرنا ہو تو گاڑی کا سہارا لیتا ہے۔ پیدل نہ چلنے کے باعث نظام ہاضمہ ہر وقت متاثر رہتا ہے۔ موٹاپا، شوگر، بلڈ پریشر، کولسٹرال، گھٹنوں کا درد اور متعدد بیماریوں کا شکار رہتا ہے۔ گاڑیوں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوگیا ہے نیز مختلف مشینوں سے نکلنے والی ریڈیائی لہریں انسانی صحت کے لیے سخت مضر ہیں۔ ان کی وجہ سے نت نئے جلدی اور متعددی امراض نے جنم لے لیا کھانے پینے کی اشیاء میں سے غذائیت کو ختم کردیا ہے۔
ان تمام نقصانات سے قطع نظر انسان نے در اصل اپنا وقت بجانے کے لیے مشینیں بنائی تھیں مگر یہی مشینیں انسان کے وقت کا ایک بڑا حصہ کھا جاتی ہیں۔ موبائل فون پر غیر ضروری گپ شپ، فیس بک پرہر وقت دوسروں کی ٹوہ لگانا۔ لاتعداد گیمز اور فضول وڈیوز میں بے تحاشہ وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ موبائل فون کی بدولت ماں باپ کے پاس اولاد کے لیے اور اولاد کے پاس والدین کو دینے کے لیے وقت نہیں بچتا اسی موبائل کی وجہ سے انسان والدین، بہن بھائی، دوست احباب اور رشتے داروں کے کٹ کر رہ گیا ہے۔
بلاشبہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر اپنی زندگیوں سے خارج نہیں کرسکتے مگر اس کے مضراثرات سے بچنے کے لیے ہمیں فطرت کی طرف واپسی کا سفر کرنا ہوگا۔ آپ جدید ٹیکنالوجی سے ضرور فائدہ اٹھائیں مگر خود کو کلی طور پر اس کا محتاج نہ بنائیں۔ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ طرز زندگی میں سادگی پیدا کریں۔ ہر وقت گاڑی میں سفر کرنے کے بجائے کبھی کبھار پیدل چلنے کو بھی ترجیح دیں۔ اپنی زندگیوں میں اعتدال پیدا کریں اور اس سے پہلے کہ آپ کے احساسات بھی مشینی ہوجائیں کوشش کریں کہ کچھ وقت ان مشینوں سے نکل کر اپنوں کو بھی دیں۔