سمیرا حمد
خوشی اور اداسی ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے، لیکن شاید آپ کو یہ علم نہ ہو کہ اداسی کی حالت میں کیے گئے فیصلے اکثر اوقات مہنگے پڑتے ہیں اور بسا اوقات ان کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موسم اور مزاج پر کسی کا اختیار نہیں چلتا۔ انسان کبھی بلا وجہ خوش ہوسکتا ہے اور کبھی مسرت کے لمحات میں بھی اس پر اداسی طاری ہوسکتی ہے۔
کئی سائنسی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خوشی اور اداسی کی کیفیت دماغ کے مخصوص حصوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تابع ہے، جو اپنے خاص سگنلز کے ذریعے انسان پر اداسی یا خوشی طاری کردیتے ہیں۔ مارکیٹ میں بعض ایسی دوائیں اور کیمیکل دستیاب ہیں جو دماغ کے احساسات پیدا کرنے والے حصوں کو متاثر کرتے ہیں اور ان کے استعمال سے انسان پر خوشی یا غمی کی عارضی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گردوپیش کا ماحول اور حالات و واقعات بھی انسان میں خوشی یا اداسی کے احساسات پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ موسموں میں تبدیلی بھی انسان کے مزاج پر اثرانداز ہوکر اس پر خوشی یا افسردگی کی کیفیت طاری کردیتی ہے، چنانچہ خودکشی کے اکثر واقعات سردیوں کے اُن ایام میں رونما ہوتے ہیں جب کئی دنوں تک سورج نہیں نکلتا اور آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن ایک حالیہ سائنسی مطالعے سے پتا چلا ہے کہ بعض اوقات انسان کو اپنی اداسی کی بھاری قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ امریکا کے معروف اور قدیم تعلیمی ادارے ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک ٹیم نے اداسی کی حالت میں کیے گئے فیصلوں پر تحقیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اداسی کی حالت میںکیے جانے والے اکثر فیصلے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
سائیکالوجیکل سائنس جرنل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے اپنی تحقیق کے لیے رضاکاروں کا انتخاب کرکے انہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا، اور پھر ایک گروپ کو اداس اور افسردہ کرنے والی وڈیوز تواتر کے ساتھ دکھائیں، حتیٰ کہ ان پر اداسی طاری ہوگئی، جب کہ دوسرے گروپ کو وڈیوز سے دور رکھا گیا۔ ہر گروپ میں شامل رضاکاروں کو سوال ناموں پر مبنی پراجیکٹ دیا گیا جس کے صحیح جوابات سے انہیں مالی فوائد حاصل ہوسکتے تھے۔ ماہرین کو معلوم ہوا کہ جن افراد نے اپنے پراجیکٹس پر کام شروع کرنے سے پہلے اداس کرنے والی وڈیوز دیکھی تھیں، انہوں نے ایسے جوابات کا انتخاب کیا جن سے انہیں فوری فوائد تو مل سکتے تھے لیکن عمومی طور پر ان میں منافع کی شرح کم تھی اور لمبے عرصے تک اس پر کام جاری رکھنے سے نمایاں مالی نقصان ہوسکتا تھا۔ وڈیوز نہ دیکھنے والے گروپ نے وڈیوز دیکھ کر اداس ہونے والے گروپ کے مقابلے میں نمایاں طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور انہوں نے اپنے پراجیکٹس کے ایسے پہلو چنے جن سے انہیں بھاری منافع حاصل ہوسکتا تھا۔ اس گروپ میں شامل افراد کا انفرادی اسکور عمومی طور پر افسردہ افراد کے مقابلے میں 13 سے 34 فیصد تک زیادہ تھا۔ اس سائنسی مطالعے کی قیادت ڈاکٹر جنیفر لیرنر نے کی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سائنسی مطالعے کے لیے ایک ایسا پراجیکٹ ترتیب دیا گیا جس میں نفسیات اور معاشیات کے مختلف پہلوئوں کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ نتائج سے پتا چلا کہ افسردگی اور اداسی کی حالت میں عمومی طور پر انسان مالیات سے متعلق دانش مندانہ فیصلے نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر جنیفر کا کہنا تھا کہ مطالعے سے یہ معلوم ہوا کہ اداسی طاری ہونے کے بعد عمومی طور پر انسان مستقبل میں زیادہ فائدے کے بجائے وقتی اور فوری طور پر کم فائدے کے حصول کو ترجیح دیتا ہے، کیونکہ افسردگی اور اداسی کی کیفیت اُسے اپنے مستقبل سے لاتعلق بنا دیتی ہے۔