131اکستان کے دستور 1973ء میں ترامیم کر کر کے ہمارے حکمرانوں نے اس کو چوں چوں کا مربہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اب قوانین اس طرح پڑھے جاتے ہیں، فلاں قانون کی فلاں دفعہ کی شق الف کو جدول الف کے قانون نمبر فلاں کی شق 2 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے۔ شق تین کا اطلاق شق ایک کی ذیل دفعات فلاں فلاں اور فلاں والے افراد پر نہیں ہوگا۔ جب کہ استثنا کی کچھ خاص صورتیں بھی جدول ب کی شق 2 کی ذیل دفعہ الف کے حصہ 2 میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا صرف یہ بتانے کے لیے کہ آسان اور سادہ قوانین اور معاملات کو پیچیدہ بنایا جارہا ہے۔ پاکستان میں جرائم کی بیخ کنی اور سزاؤں کے لیے پہلے ہی تعزیرات پاکستان کے عنوان سے قوانین بھرے پڑے ہیں۔ ان قوانین کا استعمال جس طرح ہوتا آیا ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے کوئی بھی شخص سیشن، سٹی، ہائی یا عدالت عظمیٰ میں ایک دو دن صرف سائلین سے معلومات کرے وہ کسی جنگل کی طرف بھاگ کھڑا ہوگا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ تعزیرات پاکستان، جس کے سقم یا انگریز کی جانب سے جس کی تعمیر میں بھی خرابی رکھ دی گئی ہ کی وجہ سے لاکھوں افراد تھانے کچہری کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ سارا گھن چکر چلانے والے بڑی صفائی سے اس قانون کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور بدنام حدود آرڈیننس اور اسلامی قوانین ناموس رسالتؐ وغیرہ کو کرتے ہیں۔ ان قوانین کے تحت درج مقدمات کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اگر تعزیرات پاکستان کے غلط مقدمات کو دیکھا جائے تو پورے پاکستان میں یہی لاکھوں میں ہوں گے۔ جب کہ حدود یا ناموس رسالتؐ کے قوانین کے تحت درج مقدمات کی تعداد بہت کم ہے۔ لیکن حکومت، پارلیمنٹ اور میڈیا میں بیٹھے اسلام بیزار عناصر اپنے آلہ کار قانون کو بچانے کے لیے حدود آرڈیننس اور ناموس رسالتؐ کے قوانین کو نشانہ بناتے ہیں۔
یہ بات تو خیر اب عوام بھی سمجھ گئے ہیں کہ حدود آرڈیننس یا حدود قوانین میں کوئی خرابی نہیں اور ناموس رسالتؐ قوانین میں بھی کوئی خرابی نہیں ہے۔ اصل خرابی ان قوانین کو استعمال کرنے والے ہاتھوں میں ہے۔ یہی ہاتھ بقیہ قوانین بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان ہی ہاتھوں سے تعزیرات پاکستان کے تحت لاکھوں لوگ تھانے کچہری کے چکر میں پڑے ہیں۔ اسی طرح دو سال قبل جس قانون کے تحت عوام کے بنیادی حقوق سلب کرلیے گئے تھے اس کے تحت بھی ہزاروں بے گناہ لوگوں کو غائب کردیا گیا۔ سیکڑوں کی ضمانتیں ہوئیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ گرفتاریاں غلط ہوئیں۔ سرکاری اہلکار اور خفیہ ادارے بے قصور لوگوں کو گھروں سے اُٹھا کر غائب کردیتے ہیں اور کبھی کسی کی لاش ملتی ہے تو کوئی دہشت گردی کے واقعے میں ملوث نکلتا ہے۔ اور بہت سے واقعات تو اس کی گرفتاری یا لاپتا ہونے کے کئی کئی ماہ اور سال بعد ہوتے ہیں۔ لیکن کیا کریں۔ بہر حال اب حکومت نے دہشت گردی کے خلاف ایک اور قانون لانے کا فیصلہ کیا ہے، سزاؤں میں بھی اضافے کا بل منظور کرلیا گیا ہے۔ خبر ہے کہ تحفظ پاکستان ایکٹ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کو ضم کردیا جائے گا۔ گویا جمہوریت کا خاتمہ سول عدالتیں بے کار۔ فوجی عدالتیں مستقل آئینی حصہ قرار پائیں گی۔ نئے قانون کے تحت پرانا طریقہ جاری رہے گا کہ سیکورٹی ادارے 90 روز تک ملزمان کو تحویل میں رکھ سکیں گے۔ بشرطیکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ پہلا روز کس دن شروع ہورہا ہے۔ دو تین ماہ اپنے پاس رکھنے کے بعد پہلا روز اس کی گرفتاری ظاہر کرکے شروع کیا جاتا ہے۔ جب یہ سیکورٹی ادارے تسلیم ہی نہیں کرتے کہ ہم نے کسی کو گرفتار کیا ہے تو پھر پہلا روز اور آخری روز کی اصطلاحات بے معنی ہو جاتی ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ نئے قانون کے تحت کتنے روز حراست میں رکھا جاسکے گا اور پرانے قانون کے تحت کیا ہوتا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ گرفتاری کے 24 گھنٹے کے اندر اندر متعلقہ شخص کے گھر والوں یا وکیل کو رسائی دی جائے گی یا نہیں۔ ورنہ دوسرا طریقہ تو کشمیر، اسرائیل اور شام میں بھی خوب خوب چل رہا ہے۔ اس پر ایک صاحب کی حکایت یاد آگئی ان کے ابا نے نہایت خوب صورت مکان تیار کیا تھا لیکن مکان بنتے ہی خود ابا جان اور بڑے بھائیوں نے مل کر ترمیم کردی اور مکان کی چھت پر ایک بڑا سوراخ کردیا۔ اس ترمیم کی اصلاح کے لیے ایک اور ترمیم کی گئی کہ سوراخ بند کرنے کے لیے ایک اینٹ سوراخ پر رکھ دی جائے۔ لیکن پھر بھی بارش کا پانی اور مچھر وغیرہ اندر آنے لگے تو ایک اور ترمیم کردی گئی کہ چار اور اینٹیں اردگرد رکھ دی جائیں۔ لیکن یہ ترمیم بھی کام نہیں آئی تو فیصلہ ہوا کہ سب مل کر بیٹھیں۔ جوائنٹ سیشن میں فیصلہ ہوا کہ زیادہ اینٹیں رکھ کر راستہ بند کیا جائے۔ چناں چہ چالیس اینٹیں رکھ کر ان کے اوپر 20 اور ان کے اوپر دس اینٹیں رکھنے کا فیصلہ ہوا اور سب نے دو سال تک اس فیصلے کی واہ واہ بھی کی۔ لیکن گزشتہ دنوں ان صاحب نے بتایا کہ 22 یا 25 ویں ترمیم کے بعد مکان گر ہی گیا۔ ترامیم ٹھیک نہیں تھیں۔ ہم نے پوچھا سوراخ بند کیا تھا؟ کہنے لگے نہیں۔ ترامیم کی تھیں۔