نامزد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ’’ وعدہ کرتا ہوں مفاد دباؤ اورخوف کاشکار ہوئے بغیر انصاف کریں گے۔ ہم بتائیں گے شفافیت کیا ہوتی ہے۔عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔ کسی دنیاوی فائدے کے لیے اپنے ابدی انعام کو قربان نہیں کرسکتا۔‘‘ محترم جسٹس صاحب کی بات پر بات آگے بڑھانے سے پہلے ابدی انعام کے بارے میں ایک اسرائیلی روایت سن لیجیے۔
بنی اسرائیل کے ایک قاضی نے وصیت کی کہ دفنانے کے کچھ عرصے بعد میری قبر کھول کر دیکھی جائے۔میں نے سنا ہے کہ انصاف کرنے والے قاضی کاانجام انبیاء جیسا ہوتا ہے ۔اس کی میت کو مٹی نہیں کھاتی۔میں نے زندگی میں کبھی کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کی۔ مجھے طرح طرح کی تر غیبات دی گئیں،لالچ دیے گئے لیکن میں نے بڑی سے بڑی پیشکش کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔بارہا میرے دشمن میری عدالت میں پیش ہوئے لیکن میں نے بدلے کا معمولی سا تصور بھی ذہن میں لائے بغیر انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے حق میں فیصلے دیے۔ انصاف کی راہ میں میں نے کسی رشتہ داری اور دوستی کی پروا نہیں کی۔ ہاں اتنا یاد ہے کہ زندگی میں صرف ایک بارایک دوست کا مقدمہ میری عدالت میں پیش ہوا تو فریق مخالف کے مقابلے میں دوست کی بات ذرا زیادہ کان لگا کر سن لی تھی۔مجھے یاد نہیں اس کے علاوہ میں نے کبھی کوئی بے انصافی کی ہو۔وصیت کے چند دن بعد قا ضی صاحب کا انتقال ہو گیا۔ انہیں دفنادیا گیا۔ کچھ عرصے بعد وصیت کے مطابق قاضی صاحب کی قبر کھول کر دیکھ گئی تو قبر خو شبوؤں سے مہک رہی تھی ۔قاضی صاحب کی میت ایسی تروتازہ تھی جیسے ابھی ابھی دفنائی گئی ہے البتہ دایاں کان مٹی نے کھالیا تھا۔
رحمت الٰہی کی جانب انسانیت کی ہجرت کے لیے اسلام دنیا میں آیاتو یہ دراصل انصاف کا سایہ تھا جس نے دنیا پر لطف وکرم کیا۔ اللہ کی آخری کتاب قرار دیتی ہے: ’’اے ایمان والو!انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لیے سچی گواہی دو خواہ (اس میں)تمہارا، یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہو‘‘۔
سیّدنا ابو ہریرہؓ رسالت مآبؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا’’قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں ان میں سے ایک جنت میں جائے گا اور دو جہنم میں۔ جنتی قاضی وہ ہے جو حق کو پہچانے اور اس کے مطابق فیصلہ کرے۔ وہ قاضی جو حق کو تو پہچانے لیکن فیصلہ صادر کرنے میں زیادتی کرے وہ دوزخی ہے۔اسی طرح وہ قاضی جو جہالت کے باوجود فیصلہ کرے وہ بھی جہنمی ہے۔‘‘
حدیث صحیح میں ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا’’سات آدمی ہیں جن کو اللہ تعالی اس روز اپنے عرش کے سایے میں جگہ دے گاجب اس کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا ان سات آدمیوں میں سے ایک عادل حاکم کو شمار کیا گیا ہے۔‘‘
ایک اونچے گھرانے کی عورت نے چوری کی۔جو لوگ اس کو سزا سے بچانا چاہتے تھے انہوں نے سیدنا اسامہ بن زیدکو سید المرسلینؐ کے پاس سفارش کی غرض سے بھیجا۔عالی مرتبتؐ نے فرمایا’’اسامہ تو اللہ کی حدود میں سفارش کرتا ہے‘۔‘اس پر سیّدنا اسامہ نے فوراََ کہا’’یا رسول اللہ ! مجھے معاف کر دیجیے۔مجھ سے خطا ہوئی‘‘پھر آقانبی مرسل رحمت للعالمینؐ نے خطبہ ارشاد فرمایا۔اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرما یا’’لوگو تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اس سے در گزر کرتے اور جب کوئی کمزور آدمی ایسے فعل کا مرتکب ہوتا تو اس کو سزا دیتے۔قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمدؐ پر بھی یہ جرم وارد ہوتا تو اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیا جاتا۔‘‘
اللہ سبحانہ وتعالی ظالم کو ڈھیل دیتے رہتے ہیں اور پھر بالآخر اس کی گرفت کرلیتے ہیں ۔وطن عزیز میں المیہ یہ رہا کہ اس ڈھیل کا محور عدلیہ رہی ہے۔جو حدود سے تجاوز کرتے رہے عدلیہ ان کی معاون رہی ہے ۔جوظلم میں بے باک ہوئے عدلیہ ان کی مددگار رہی۔ہر صاحب اقتدار اور زبردست عدلیہ کی گرفت سے آزاد رہا۔پاناما میں پانچ سو پاکستانیوں کے نام آئے لیکن تما م تر کوشش کے باوجود عدلیہ ان کا احتساب کرنے کے لیے تیا ر نہیں۔عدالت کے معزز جج صاحبان سے بہتر کون جا نتا ہے برف سب سے زیادہ پہاڑ کی چوٹی پر جمتی ہے ۔مچھلی سر کی طرف سے سڑنا شروع ہوتی ہے۔لیکن اس ملک کے حکمران بدترین کرپشن کے باوجودحکمرانی سے لطف اندوز رہے ہیں۔سارا دبئی پاکستانی سرمایہ داروں نے خریدلیا۔سوئس بینک میں ملک کے چوروں کے اربوں ڈالر جمع ہیں۔انگلینڈ میں پاکستانیوں کی جائدادوں کا شمار ہے نہ قطار۔ایک سابق چیف کے بھائی نے ہر سرکاری کنٹریکٹ میں قیامت مچادی۔سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کا پلی بارگین کیس آپ کے سامنے ہے۔ چالیس ارب کی کرپشن دو ارب روپے لے کر معاف کردی گئی۔ کرپشن ایک ہلکا لفظ ہے۔یہ چوری کی وارداتیں ہیں۔یہ سب چورہیں۔جو اس لیے چھوڑے جا رہے ہیں کہ بڑے ہیں۔اس ملک میں غریب پندرہ پندرہ برس بے گناہ ہونے کے باوجود جیل میں سڑنے کے بعد بصد مشکل معاملہ عدالت عظمیٰ جانے کے بعد رہا ہوتا ہے۔جسٹس آصف کھوسہ بھی چیخ اٹھتے ہیں ان کی زندگی کے اتنے سال کا حساب کون دے گا۔ سمندروں جیسے گہرے معانی والی رسالت مآبؐ کی اُوپر ذِکر کی گئی حدیث مبارکہ ایک مرتبہ پھر پڑھیے اور پھر ہماری عدلیہ کے فیصلوں کو دیکھیے۔ کیا نامزد چیف جسٹس اس خدائی قانون کے مطابق معاشرے کو استوار کر سکتے ہیں۔بڑے چوروں پر گرفت کر سکتے ہیں۔
پچھلے دنوں جنرل مشرف نے ایک ٹی وی چینل پر کہا کہ وہ ایک ڈیل کی وجہ سے ملک سے باہر نکلے ہیں جوجنرل راحیل شریف کے
سیاستدانوں اور عدلیہ پر دباؤ کی وجہ سے طے پائی تھی۔جنرل مشرف کی اس بات کو کوئی بھی رنگ دیا جائے لیکن یہ اس حقیقت کا اظہار ہے ہر عہد میں ہماری عدلیہ نے دباؤ کے آگے ہتھیا ر ڈالے ہیں ۔ہمارا دامن ان ججوں سے خالی ہے جو جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے اور مزاحمت کرنے کی جرات رکھتے ہیں سوائے چند ایک کے۔ہماری بربادی کی ذمے دار نہ فوجی حکومتیں ہیں،نہ سیاسی حکومتیں، نہ اسمبلیاں ہیں اور نہ پارلیمنٹ،ہماری بربادی کی ذمے دار ہماری عدلیہ ہے۔معاشرے عدم انصاف سے اور ظلم سے برباد ہوتے ہیں۔آخر میں پھر ایک قصہ سن لیجیے۔
ایک توتے اور توتی کا گزر کسی جنگل سے ہوا۔جنگل جابجا جلا ہوا، سبزے سے محروم، بربادی اور ویرانی کا منظر پیش کررہا تھا۔ توتے نے توتی سے کہا’’ضرور اس جنگل میں کسی الّو کا بسیرا ہے ۔الّو جہاں بسیرا کر لیتے ہیں بربادی وہاں ڈیرے ڈال لیتی ہے۔‘‘ قریب ہی ایک الّو یہ باتیں سن رہا تھا۔وہ ان کے پاس آیا اور بولا ’’میری بڑی خوش قسمتی کہ آپ میرے جنگل میں تشریف لائے۔ اگر رات کا کھانا میرے ساتھ کھائیں تو بہت مہربانی ہوگی۔ انہوں نے اس کی دعوت قبول کرلی۔دعوت میں الّو نے ان کی خوب خاطر تواضع کی۔
بقیہ صفحہ9نمبر1
قومیں مرتی ہیں اس آزار سے
دعوت کے بعدجب توتا اور توتی جانے لگے تو الّو نے طوطے سے کہا ’’یہ تم توتی کو لے کر کہاں جا رہے ہو؟یہ تو میری بیوی ہے۔‘‘ توتا اور توتی اس کی بات پر بڑے حیران ہوئے۔ توتے نے کہا ’’بھائی اللہ کا خوف کرو، تمہاری جنس الگ، توتی کی الگ، یہ تمہاری بیوی کیسے ہوسکتی ہے؟‘‘ الّو نے کہا’’فضول بک بک مت کرو۔عدالت میں چلتے ہیں ۔عدالت جس کے حق میں فیصلہ دے دے۔‘‘ توتے اور توتی نے اس کی یہ بات مان لی۔معاملہ محترم جج صاحبان کے سامنے پیش ہوا۔کئی دن کی جرح کے بعد جج صاحب نے فیصلہ سنایا کہ’’ توتی الّوکی بیوی ہے اور اس کے ساتھ ہی جائے گی‘‘فیصلہ سن کر توتا روتا ہوا اکیلا جانے لگاتو الّو نے کہا ’’کہاں جارہے ہو، توتی کو تو ساتھ لیتے جاؤ‘‘ توتے نے کہا’’جج صاحب نے فیصلہ سنادیا اب توتی تمہاری بیوی ہے۔‘‘ الو نے کہا ’’نہیں توتی تمہاری بیوی ہے اور تمہارے ساتھ ہی جائے گی لیکن یاد رکھو بستیاں الّو کا بسیرا کرنے سے برباد نہیں ہوتیں بستیاں تب برباد ہوتی ہیں جب انصاف وہاں سے رُخصت ہوجاتا ہے‘‘۔