احساس برتری کی بد ہضمی

846

آج کے انسان کی سب سے بڑی بیماری احساس برتری کی بد ہضمی ہے وہ مقدس کلمات کو مانتا ہے نہ بزرگوں کے اقوال زریں پر عمل کرتا ہے غالباً شیخ سعدی کا ارشاد گرامی ہے کہ انسان کی سب سے بڑی دشمن اس کی زبان ہے اور سب سے بڑی دوست بھی زبان ہی ہوتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا المیہ بھی یہی ہے کہ موصوف نے زبان کو دوست بنانے کے بجائے دشمن بنا لیا ہے۔ خان صاحب جب سے وزیر اعظم کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے ہیں انہوں نے اپنی زبان کو مخالفین کی بد خوئی کے لیے وقف کررکھا ہے۔ موصوف نے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوراہ نہیں کی کہ ان کی پیش رو حکومت کو ایوان اقتدار سے بے دخل کیوں ہونا پڑا۔ عقل و دانش کا تقاضا یہی تھا کہ موصوف ان کے انجا م سے عبرت حاصل کرتے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے پر توجہ دیتے مگر انہوں نے اپنی حکومت کو اپنی مقبولیت کا انعام قرار دیا اپنے بیانیے کو عوام کے دل کی آواز سمجھ بیٹھے۔ حالانکہ ساری دنیا اس حقیقت کا ادارک رکھتی ہے کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ دراصل امتحان گاہ ہے۔ حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ موصوف نے ہوم ورک ہی نہیں کیا تھا جو ہوم ورک نہیں کرتے وہ کبھی پاس نہیں ہوتے ناکامی ان کا مقسوم ہوتا ہے۔ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ انہیں کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے جن کو ان کی ضرورت تھی وہی امور مملکت کی ضروریات کا بھی خیال کریں گے۔ وزیر اعظم کی گدی پر براجمان ہونا چاہتے تھے خود کو وزیر اعظم کہلوانا چاہتے تھے سو حالات نے موصوف کو وزیر اعظم بنا دیا۔ وزارت عظمیٰ کی گدی ان کے کٹ پر ایشو ہوچکی تھی۔ کٹ پر ایشو ہونے والی چیز کی ایک مدت مقرر ہوتی ہے۔ سو خان صاحب بھی اس گدی کی مدت پوری کریں گے اور ہر نئے سال پر تالیان بجائیں گے۔ ہم خود کو فوج کا آدمی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے سینے پہ تمغہ جنگ سجا ہوا ہے۔ مگر شیخ رشید کا خود کو فوج کا آدمی کہنا فوج کی توہین ہے فوج واہیات باتوں پر توجہ دے کر اپنا وقت ضائع کرنے کی خوگر نہیں کیونکہ پندرہ بیس سال تک وہ جمہوریت کے توتوں کو آزمانا چاہتی ہے۔ عمران خان بھی آزمائشی مدت پوری کررہے ہیں حکومت کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے ہر طرف عمران خان ہی نظر آرہے ہیں۔ شاید اس لیے بعض لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت بھارتی فلم مغل اعظم کا وہ سین جس پر رقص کے دوران ہر طرف مدہو بالا ہی دکھائی دے رہی ہے۔
یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ ایک ایسے شخص کو مسلط کر دیا گیا ہے جو عقل کل ہونے کی زعم میں مبتلا ہے خان صاحب حکومت کرنے کے بجائے ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں جنہیں اپنی ناکامی کا ذمے دار قرار دے سکیں۔ معیشت کی تباہی کا ملبہ اس پر ڈال سکیں۔ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں جکڑ رکھا ہے مگر کوئی بھی حکومت اس حوالے سے سیاست نہیں کررہی ہے۔ بھارت ہمارا ہمسائیہ ہے سو اسے ماں جایہ کہا جاسکتا ہے مگر اس کی کیمسٹری میں سوتیلے پن کا مادہ کچھ زیادہ ہی ہے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ بھارت میں کورونا وائرس نے جو تباہی مچائی ہے خدا سب کو اس سے محفوظ رکھے شمشان گھاٹوں پر مردے جلانے کے لیے قطاریں لگی ہوئی ہیں مگر وہاں کورونا پر کوئی سیاست نہیں کررہا ہے سب کی توجہ کورونا کے متاثرین پر ہے شنید ہے کہ ہندو اپنے مسلمان دوستوں سے منت سماجت کررہے ہیں کہ اپنے خدا سے ہمارے تحفظ کی دعا کریں مسلمان کتنا بھی فاسق و فاجر ہو مگر وہ آدھا ایمان ضرور رکھتا ہے صفائی آدھا ایمان ہے ہر مسلمان بچے کو کھانے سے پہلے سے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کی ہدایت کی جاتی ہے جو اس کی عادت بن جاتی ہے بچپن ہی سے نماز روزے کی پابندی کرائی جاتی ہے جو مسلمان نماز کی پابندی کرتے ہیں وہ دن میں کم از کم دس بار ہاتھ منہ دھوتے ہیں فجر کی نمازسے پہلے وضو کرنا پھر ناشتے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا اسی طرح دن میں پانچ بار وضو کرنا اور کھانے سے پہلے اور بعد ہاتھ دھونا انہیں کورونا جیسی وبائوں سے بڑی حد تک محفوظ رکھتاہے۔ ہندو صرف صبح اشنان کرتے ہیں اور سارا دن کا م میں مصروف رہتے ہیں کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا وہ تو صبح کے غسل یعنی اشنان ہی کو صفائی کا سبب سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمان کورونا سے محفوظ اور ہندو غیر محفوظ ہیں مسلم دشمن قوتوں کا بس چلتا تو وہ کورونا کو یہودی یا ہندو بنا دیتے مگر یہ ان کے اختیار میں نہیں آدمی بہت کچھ چاہتا ہے مگر چاہت بے لگام ہو تو آدمی منہ کے بل گرتا ہے کہ یہی اس کا مقدر ہے بھارت کورونا کی ویکسین خود بناتا ہے اس کے باوجود کورونا کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے کیونکہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔