جناب وزیر اعظم ! باتیں نہیں کچھ کر کے دکھائیں

298

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارا نظام انصاف طاقتور کو نہیں پکڑ سکتا، ایلیٹ کلاس نے ملک کو ہر طرح سے اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے ایک نظام بن گیا ہے جس میں عام آدمی کے لیے کوئی سوچ ہی نہیں کہ وہ کیسے زندگی گزارے۔ جمعرات کو رائیونڈ میں پنجاب پیری اربن کم لاگت ہائوسنگ سکیم کے منصوبے کے آغاز کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لاہور ماضی میں باغوں کا ٹہر تھا یہاں آلودگی نہیں تھی، پھر امیروں کے لیے بحریہ اور ڈیفنس کے علاقے بن گئے۔ کسی نے عام آدمی کے لیے اس کے اپنے گھر کا نہیں سوچا پھر کچی آبادیاں بننا شروع ہوئیں، آج آدھا کراچی کچی بستیوں پر مشتمل ہے جہاں بجلی اور گیس کے غیر قانونی کنکشن رشوت دے کر حاصل کئے جاتے ہیں، سیوریج کا نظام نہیں ہے اس کے ساتھ ساتھ قبضہ گروپ متحرک ہوتے گئے جو کمزور لوگوں یا سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے میں ملوث تھے جج ، پولیس سمیت دیگر محکمے ساتھ مل گئے پھر عدالتوں میں ایسے کیس 50, 50 سال زیر التوا رہے۔ آج پاکستان میں 30 سال سے حکومت کرنے والے سب چور پی ڈی ایم کی چھتری تلے اکٹھے ہو کر شور مچا رہے ہیں کہ این آر او دے دو وہ احتساب کے لیے تیار نہیں ، کیونکہ وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ لیکن طاقتور کو قانون کے تابع لانا ہماری ذمہ داری ہے۔ وزیر اعظم نے کہا جس معاشرے میں امیر کم اور غریب زیادہ ہوں وہ معاشرہ کبھی اوپر نہیں جاتا ہم نے دیکھ لیا ہے ہمارا نظام انصاف طاقتور لوگوں کے آگے ناکام ہو چکا ہے وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا جو عام آدمی کو اوپر لانے کی کوشش نہیں کرتا، چھوٹا سا معاشرہ جس میں امیروں کا چھوٹا سا جزیرہ ہو اور نیچے غریبوں کا سمندر کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ کمزور کو اوپر اٹھانے کے لیے ریاست نے ذمہ داری لینی ہے۔ انہوں نے کہا ہمارے سرکاری ہسپتال انگریزوں کے بنائے ہوئے ہیں امیر نجی ہسپتالوں اور بیرون ملک اپنا علاج کراتے ہیں۔ تعلیمی نظام انگلش میڈیم ،نوکری کے لیے انگلش میڈیم جب کہ کوئی نہیں سوچتا کہ اردو میڈیم کو کیسی تعلیم مل رہی ہے، مدارس جہاں 25 لاکھ بچے پڑھ رہے ہیں ان کا کبھی کسی نے نہیں سوچا۔ ہمارے محترم وزیر اعظم کو جانے کب یقین آئے گا کہ وہ اب حزب اختلاف کے رہنما نہیں بلکہ پورے پاکستان کے با اختیار منتظم اعلیٰ ہیں۔ آپ جب تک اقتدار سے باہر تھے تو اس طرح کی تقریریں اچھی لگتی تھیں، ان کا جواز بھی موجود تھا مگر اب تو آپ ملک کی با اختیار ترین شخصیت ہیں، ملک کے وزیر اعظم، سیاہ و سفید کے مالک ہیں، آپ کو پانچ برس کے لیے اقتدار سونپا گیا ہے اگرچہ اس آئینی مدت کی تکمیل کے آثار سیاسی مبصرین کی رائے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں تاہم اگر آپ اسے مکمل بھی کر لیں، تو بھی آپ اس میں سے نصف سے زائد وقت گزار چکے ہیں، سوال یہ ہے کہ اس عرصہ اقتدار میں آپ نے نظام کی تبدیلی کے لیے کوئی ایک بھی ٹھوس قدم اٹھایا ہو تو قوم کو آگاہ کیجئے، ملک کے نظام انصاف کی جن خامیوں کی آپ نے نشاندہی کی ہے بلاشبہ اس سے بھی زیادہ خرابیاں اس میں موجود ہیں، عام آدمی کو واقعی انصاف دستیاب نہیں، انہی خرابیوں کو درست کرنے کی خاطر آپ نے اپنی سیاسی جماعت کا نام ’’تحریک انصاف‘‘ رکھا تھا مگر آپ کے دور اقتدار میں نظام انصاف میں بہتری کی بجائے ابتری ہی دیکھنے میں آئی ہے اور ایسے ایسے سکینڈل منظر عام پر آئے ہیں جن کی ماضی میں نظیر تلاش کرنا مشکل ہے، جناب وزیر اعظم آپ نے ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ کی نوید قوم کو سنائی تھی مگر آج ایک پاکستان یا سب کے لیے یکساں نظام تو دور کی بات ہے، پہلے سے جاری طبقاتی نظام کی جڑیں کہیں زیادہ گہری ہو چکی ہیں، قوم کو یکساں نظام تعلیم دینے غریب اور متوسط طبقہ کے بچوں کو بھی اعلیٰ معیاری اور مہنگے تعلیمی اداروں میں حصول تعلیم کے مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات کی بجائے گزشتہ تین برس سے قوم کو یکساں تعلیمی نصاب کے چکر میں گھمایا جا رہا ہے، اس لحاظ سے یہ بھی ایک مفید اقدام ہو سکتا ہے کہ اس سے نئی نسل میں سوچ کی یکسانیت اور فکری ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکتا ہے مگر ہمارے نظام تعلیم کے کار پردازان در حقیقت یکساں نصاب کی آڑ میں بین الاقوامی استعمار کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں، قرآن و سنت پر مبنی دینی تعلیمات اور نظریۂ پاکستان کو نئی نسل کے ذہنوں میں راسخ کرنے والے اسباق کو چن چن کر نصاب سے خارج کیا جا رہا ہے اور ان کی جگہ سیکولر، لادینیت اور نام نہاد جدیدیت کو زبردستی شامل نصاب کیا جا رہا ہے۔ انگریزی کا تسلط پورے نظام پر مضبوط سے مضبوط تر کیا جا رہا ہے، حالانکہ عدالت عظمیٰ کئی برس قبل یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ملک میں اردو کو قومی اور سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ کیا جائے، آئین پاکستان کا بھی یہی تقاضا ہے اور خود بانی پاکستان بھی اپنی تقاریر میں اردو کو پاکستان میں قومی زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کی واضح ہدایات دیتے رہے ہیں مگر اس سب کے باوجود انگریز کی ذہنی غلامی میں مبتلا ایک مخصوص طبقہ انگریزی کو جبراً قوم پر مسلط رکھنے پر بضد ہے تاکہ ملک کی باگ ڈور پر اس کی گرفت کمزور نہ ہونے پائے، وزیر اعظم کیا نشاندہی کر سکتے ہیں کہ پاکستان کو ایک نہیں جبراً دو حصوں میں منقسم رکھنے والے طبقاتی اقدام کے خاتمہ کے لیے ان کی حکومت نے کیا پیش رفت کی ہے؟ وزیر اعظم عمران خاں نے صحت کی سہولتوں کے فقدان، امیروں کے نجی ہسپتالوں اور بیرون ملک علاج کرانے کا تذکرہ بھی اپنے خطاب میں کیا ہے مگر کیا وہ اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ ان کی حکومت بھی سرکاری ہسپتالوں کا نظام بہتر بنانے اور وہاں غریب اور امیر کو اعلیٰ اور قابل اعتماد علاج فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے اور پہلے سے موجود ہسپتالوں میں علاج کا معیار بہتر بنانے اور ادویات کی فراہمی یقینی بنانے کی بجائے لوگوں کو صحت کارڈ کے چکر میں ڈال دیا گیا ہے جس سے قومی خزانے پر ایک نیا بوجھ پڑ جائے گا کیونکہ موجودہ ہسپتالوں پر اربوں روپے کے اخراجات بھی جاری رہیں گے اور صحت کارڈ کے ذریعے نجی ہسپتالوں کو قومی وسائل کی لوٹ مار کا ایک نیا راستہ بھی فراہم ہو جائے گا۔ سرکاری دفاتر کا نظام بھی گزشتہ تین برس میں تنزلی سے دو چار دکھائی دیتا ہے، سرکاری افسروں اور اہلکاروں میں کام چوری اور رشوت خوری کے رجحان اور تناسب میں بھی اضافہ ہوا ہے وزیر اعظم دعوئوں کے باوجود اس میں اصلاحات کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ جناب عمران خاں نے تیس برس سے حکومت کرنے والوں کے حساب نہ دینے ، سب چوروں کے پی ڈی ایم کی چھتری تلے جمع ہو کر این آر او مانگنے کا ذکر بھی دہرایا ہے اور کہا ہے کہ ملک کو اشرافیہ نے قبضہ میں لے رکھا ہے، لیکن جناب وزیر اعظم یہ دعویٰ تو آپ نے کیا تھا کہ ملک و قوم کو مافیا اور اشرافیہ سے نجات دلائیں گے چوروں، ڈاکوئوں اور لٹیروں سے قوم کا لوٹا ہوا مال قوم کو واپس دلائیں گے آخر وہ وقت کب آئے گا جب آپ اپنا یہ وعدہ پورا کر کے قوم کے سامنے سرخرو ہوں گے جہاں تک چوروں کے حساب نہ دینے کا تعلق ہے تو جناب عالی! یہ کوئی نئی بات نہیں دنیا کی تاریخ میں ایسا کب ہوا ہے کہ چوروں نے خود آگے بڑھ کر رضا کارانہ طور پر پیشکش کی ہو کہ ہمارا احتساب کر لیا جائے، ہم سے چوری کا مال وصول کر کے ہمیں پس دیوار زنداں بھیج دیا جائے۔ اس کے لیے ہمیشہ قانون کا کوڑا ہی حرکت میں لانا پڑتا ہے… جہاں تک چوروں ڈاکوئوں اور لٹیروں کے پی ڈی ایم کی چھتری تلے جمع ہونے کا تعلق ہے تو ممکن ہے آپ کا تجزیہ درست ہو مگر آپ اگر اپنی صفوں اور اپنے دائیں بائیں جمع اتحادیوں پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی یہ چور، ڈاکو اور لٹیرے خاصی تعداد میں آپ کو دکھائی دے جائیں گے اس لیے ہم گزارش کریں گے اپنی پاکئی داماں کی حکایت کو طول دینے کی بجائے اب کچھ کر کے دکھائیں کہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے، پھر آپ کچھ کرنا بھی چاہیں گے تو نہ کر پائیں گے اور سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا…!!!