بھارتی فوج افغانستان میں طالبان کا براہ راست سامنا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی

217

اسلام آباد ( رپورٹ: میاں منیر ) اس خطے میں اس وقت سی پیک ایک اہمیت کا حامل منصوبہ ہے اور چین اسے کسی قیمت پر کسی کے ہاتھوں بھی نقصان نہیں پہنچنے دے گا، افغانستان میں امن اور اس خطے میں تجارتی سرگرمیاں سی پیک کے لیے بہت اہم ہیں، جس کے لیے سعودی عرب، روس، ایران ، چین، قطر،ترکی کے علاوہ بھارت اور امریکا بھی اپنے اپنے مفادات کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، افغانستان میں امن کے قیام کے لیے اس کے ہمسایہ ممالک کا کوئی کردار تو بنتا ہے لیکن اس کی سرحدوں سے دور کسی ملک کا کوئی کردار نہیں بنتا، جسارت کے اس سوال کہ امریکی انخلا کے بعد بھارت افغانستان میں اپنی فوج بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے کے جواب میں سینئر تجزیہ کار عظیم چودھری نے کہاکہ بھارت کے لیے تجارتی راہ تو کھل سکتی ہے، اسے پاکستان کی جانب سے بھی اور وسط ایشیائی ریاستوں کے راستے بھی رسائی مل سکتی ہے تاہم اس کی جانب سے افغانستان میں فوج بھیجنے کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا ہے اسے علم ہے کہ چین کے ساتھ اس کے حالیہ تنازعے میں چین نے اس کے لداخ والے فوجی مقام پر قبضہ کرلیا ہے اور اب اس کے لیے وہاں سے شرارت کرنے کا کوئی موقع نہیں رہا ،بھارت اب کشمیر میں بھی 35A کی واپسی کے لیے تیار نظر آرہا ہے، سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ روس اب بھارت کو افغا نستان جیسے ملک میں کوئی ایسا کردار ادا نہیں کرنے دے گا جس سے وہاں امریکا دوبارہ سر اٹھائے، روس نے جہاد افغانستان میں جو نقصان اٹھایا اس کا بدلہ اس نے نائن الیون میں لے لیا ہے اور وہ اب امریکا کو کسی قیمت پر دوبارہ اٹھنے نہیں دے گا، اس خطے میں بھارت امریکا کا اتحادی ہے یہ سب جانتے ہیں، دفاعی امور کے تجزیہ کار مظہر طفیل نے کہا کہ بھارت افغانستان میں اپنی فوج کی تعیناتی کا رسک لینے میں کبھی جلد بازی نہیں کرے گا اس کی سب سے بڑی وجہ بھارتی فوج کے پاس تربیت کی کمی ہے کیونکہ افغانستان کی جغرافیائی حیثیت جس طرز پر ہے اس کے مطابق بھارتی فوج کبھی بھی طالبان کے ساتھ براہ راست فرنٹ پوزیشن پر نہیں لڑے گی۔ اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین نے بھارتی فوج کو جس طرح جانی و مالی نقصان پہنچایاہے اس کے بعد بھارتی فوج ذہنی طور پر بھی اس قابل نہیں کہ وہ افغان طالبان سے براہ راست لڑائی لڑ سکیں دوسرا اہم نکتہ افغان طالبان جس طریقے سے نیٹو فورسز سے کئی سالوں تک اپنی لڑائی لڑتے رہے ہیں ان کے لیے بھارتی فوج کی کوئی حیثیت ہی نہیں اور یہ بات بھارتی فوج بخوبی جانتی ہے، جاوید الرحمن ترابی کہا کہ بھارت تو یقیناً یہ چاہے گا کیوں کہ اس طرح سے وہ جہاں افغانستان میں اپنا اثرونفوذ بڑھائے گا وہیں پر پاکستان میں دراندازی کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہے گا لیکن عملی طور پر امریکا کی عبرت ناک شکست کے بعد بھارت کے لیے یہ اتنا آسان نہیں ہو گا اور وہ خواہش کے باوجود ایسا کر نے سے گریز برتے گا کیونکہ افغانستان کی غیور قوم اگر بھارت ایسی غلطی کر بھی دیتا ہے تو اسے امریکا سے بدتر انجام سے دو چار کرے گی، سفارتی امور کے ماہر تجزیہ کار اعجاز احمد نے کہا کہ دوحا مذاکرات میں یہ شرط شامل ہے کہ بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں ہوگا، یہ معمولی شرط نہیں ہے، اب اگر وہ وہاں فوج بھیج دیتا ہے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ وہ ایک فریق ہے، اور کیا اسے کوئی بطور فریق تسلیم کرے گا، اسے کسی قیمت پر فریق تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے، امریکی انخلا کے بعد بھارت کی فوج وہاں جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔