آئی ایم ایف کے خلاف اعلان بغاوت؟

255

موجودہ حکومت کے چوتھے وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کے احکامات ماننے سے انکار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بجلی مہنگی ہوگی نہ ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی پالیسیاں ایسی ہیں کہ معیشت کا گلا گھونٹ دیں جس طرح سے آئی ایم ایف کہہ رہا ہے ویسے نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنے طریقے سے ریونیو بڑھانا ہوگا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین وزارت خزانہ کا منصب سنبھالنے سے قبل موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسی کے ناقد تھے، لیکن انہوں نے وزارت خزانہ کا منصب سنبھال لیا۔ ساری نظریں ان کی طرف اس لیے بھی نہیں کہ حکومت سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے معاہدہ کرچکی ہے تو وہ کیسے نئی معاشی پالیسیاں تشکیل دیں گے۔ وزیر خزانہ کی جانب سے آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر کھلے عام تنقید کا ایک سبب تو انہوں نے خود بیان کردیا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ اور سخت شرائط کی سیاسی قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ موجودہ حکومت اپنی ڈھائی سال کی مختصر مدت میں غیر مقبولیت کی انتہا پر پہنچ گئی ہے تو اس کی وجہ سے حد سے زیادہ ناقابل برداشت مہنگائی ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے بھی بنیادی اشیائے ضرورت بجلی، تیل اور گیس کے نرخوں میں اضافے سے انکار کردیا ہے، اب حکومت کے پاس سب سے بڑا چیلنج ہی یہ ہے کہ وہ دو سال کی مختصر مدت میں مہنگائی پر قابو کیسے پائے۔ شوکت ترین اس سے قبل بھی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں، وہ اور ان کے پیش رو ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو پیپلزپارٹی نے معاشی ٹیم کے لیے متعارف کروایا تھا۔ پیپلزپارٹی کے دور میں امریکی دبائو پر آئی ایم ایف سے معاہدہ پر مجبور کیا گیا، یہ بھی پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے کہ نواز شریف کے دور میں قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ لگایا گیا، اس کا نتیجہ بھی قوم نے بھگت لیا۔ موجودہ حکومت معاشی تباہی کی ذمے داری سابق حکومتوں پر ڈالتی رہی اور بجا ڈالتی رہی لیکن جس جال میں ملک پھنس گیا ہے اس کا علاج اس کے پاس بھی نہیں تھا۔ اب نئے وزیر خارجہ نے آئی ایم ایف کے خلاف بظاہر اعلان بغاوت کیا ہے۔ دیکھیں اس کا انجام کیا ہوتا ہے، اس وقت ملک میں تین بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہین اور ان کے پاس قومی پالیسیوں کی تشکیل دینے والی اہلیت رکھنے والے افراد کار کی قلت ہے۔ تحریک انصاف میں اگر قحط الرجال ہے تو وہ سمجھ میں آتا ہے کہ محض ایک نعرے کی بنیاد پر قائم ہونے والی سیاسی جماعت ہے جس نے سب سے زیادہ مایوس کیا ہے۔ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کی سخت شرائط منظور کر چکی ہے، حفیظ شیخ کو بڑے اہتمام سے لایا گیا تھا اور وزیر اعظم نے اپنے وزیر خزانہ کو منتخب کرانے کی مہم خود چلائی تھی جس میں ان کو ناکامی ہوئی، اب شوکت ترین لائے گئے ہیں ان کی طاقت کا پس منظر کیا ہے کہ وہ علی الاعلان آئی ایم ایف کی ہدایت ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔